Saturday, August 14, 2010

میرا جھنڈا

اگر آفتیں حکمرانوں سے منسوب ہیں تو خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ جیسے کوئی قوم عمل کرے گی ویسا ہے اس پی حکمران مسلط کیا جائے گا
آج بھی یاد ہے کہ جب کبھی گھر میں جھنڈیاں لگاتے تھے تو جب تک شام کو اتار نہ لیتے، سونے کی اجازت نہ ملتی.اور اگر کبھی غلطی سے لگانے کے دوران یا بعد میں کوئی جھنڈی خراب ہو جاتی   تو خیر نہ ہوتی. امی کا وہ لیکچر آج بھی یاد ہے
کبھی ایسا نہ ہوا کے ١٤ اگست نہ منایا ہو. آج پہلی مرتبہ ہاسٹل میں منایا. حیرانی ہوئے کہ میسج کے علاوہ کسی نے کوئی اہتمام نہ کیا
خیر میرے پاس جھنڈا تھا، کمرے کے بہار لگانے کا فیصلہ کیا. چند دوستوں نے سراہا تو چند نے منا کیا. شاید انہیں علم تھا
ایک ادارہ جہاں علم کو پھیلایا جاتا ہے، جہاں ہر شخص پڑھا لکھا ہے، ہر کوئی کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے کا دعویدار ہے، ایک وفاقی یونیورسٹی، جو ملک کے کسی دور دراز پسماندہ علاقے میں نہیں بلکے ایک فیصل آباد میں ہے، جہاں پورے ملک سے لوگ پڑھتے ہیں، وہاں بھی ایسے لوگ ہیں
پتا نہیں، کیوں، اس کے والدین نہیں تھے یا وہ بھی ایسے ہے تھے. وہ علیحدگی پسند تھا یا ملک سے بیزار. اس نے کمرے کے باہر سے جھنڈا اتارا، پاؤں تلے روندا اور ایک کونے میں پھینک دیا
ایک دوست نے گذرتے ہے دیکھا تو اٹھا لیا. ابھی اٹھ کرگیا ہے،کہہ رہا تھا کہ اگر یہ اس قوم کے اعمال ہیں تو اس پر جتنی آفتیں یں کم ہیں. کیونکہ اگر آفتیں حکمرانوں سے منسوب ہیں تو خدا نے یہ بھی کہا ہے کہ جیسے کوئی قوم عمل کرے گی ویسا ہے اس پی حکمران مسلط کیا جائے گا. کسی کو جوتا پڑنے پر خوش ہونے والوں کو سوچنا چاہیے، کہ جو جوتا خدا پوری قوم کے منہ پر مر رہا ہے، اس سے کیسے بچا جائے.  کیا آج ہم اپنے اعمال درست نہیں کر سکتے؟ ورنہ گمراہی اور تباہی یقینی ہمارا مقدار ہے
میں تو صرف اتنا کہ سکتا ہوں
 LOVE it or LEAVE it